وٹامنز اور کیلشیم کی سپلیمنٹس ہم میں سے اکثر لوگ روز لیتے ہونگے۔ ان ادویات کے استعمال کا مشورہ معالج جسم میں ضروری غذائیت کی کمی کو دور کرنے کے لیے دیتے ہیں ۔ یہ سپلیمنٹس صحت کے لیے فائدہ مند ہوتی ہیں ۔ البتہ ان کا زیادہ استعمال صحت پر مضر اثرات بھی مرتب کر سکتا ہے ۔ ڈاکٹروں کے مطابق یہ ضروری نہیں کہ وٹامنز اور کیلشیم سپلیمنٹس کا ضرورت سے زیادہ استعمال آپ کے لیے بہتر ہی ہو۔
کیلشیم
کیوں ضروری ہے؟
کیلشیم ہڈیوں کی مظبوطی اور نشونما میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ کئی دہائیوں سے ماہرین آسٹیوپروسس یعنی ہڈیوں کے بھربھرا کردینے والی بیماری سے بچاؤ کے لیے کیلشیم سپلیمنٹس تجویز کرتے آرہے ہیں ۔ ہڈیوں کو پتلا کردینے والا یہ مرض فریکچرز کا سبب بنتا ہے ۔ دراز عمر افراداور خواتین کو اس مرض میں مبتلا ہونے کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں ۔ اگر شروع سے ہی کیلثیم کی سہی مقدار ہڈیوں کو مل جائے تو عمر بڑھنے پر انسان اس بیماری سے محفوظ رہتا ہے ۔
کیلشیم ہڈیوں کی مظبوطی اور نشونما میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ کئی دہائیوں سے ماہرین آسٹیوپروسس یعنی ہڈیوں کے بھربھرا کردینے والی بیماری سے بچاؤ کے لیے کیلشیم سپلیمنٹس تجویز کرتے آرہے ہیں ۔ ہڈیوں کو پتلا کردینے والا یہ مرض فریکچرز کا سبب بنتا ہے ۔ دراز عمر افراداور خواتین کو اس مرض میں مبتلا ہونے کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں ۔ اگر شروع سے ہی کیلثیم کی سہی مقدار ہڈیوں کو مل جائے تو عمر بڑھنے پر انسان اس بیماری سے محفوظ رہتا ہے ۔
زیادہ استعمال کیسے نقصان دہ ہے؟
کئی تحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ جو مرد اورعورتیں ایک دن میں ایک ہزار سے بارہ ہزار ملی گرامز سے زیادہ کیلشیم لیتے ہیں ان کے لیے دل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ جسم میں وٹامن ڈی کی کمی ہو تو کیلشیم ہڈیوں میں جذب نہیں ہو پاتا ۔ جو کیلشیم جذب نہیں ہوتا وہ خون کی نالیوں میں جاکر پھنس جاتا ہے جس کے باعث دل کے دورے کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ ضرورت سے زیادہ کیلشیم لینے سے پٹھوں میں درد، پیٹ میں درد اور گردوں میں پتھری جیسے مسائل بھی پیش آسکتے ہیں ۔
کئی تحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ جو مرد اورعورتیں ایک دن میں ایک ہزار سے بارہ ہزار ملی گرامز سے زیادہ کیلشیم لیتے ہیں ان کے لیے دل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ جسم میں وٹامن ڈی کی کمی ہو تو کیلشیم ہڈیوں میں جذب نہیں ہو پاتا ۔ جو کیلشیم جذب نہیں ہوتا وہ خون کی نالیوں میں جاکر پھنس جاتا ہے جس کے باعث دل کے دورے کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ ضرورت سے زیادہ کیلشیم لینے سے پٹھوں میں درد، پیٹ میں درد اور گردوں میں پتھری جیسے مسائل بھی پیش آسکتے ہیں ۔
اس سے بچنے کے لیے کیا کریں؟
کیلشیم لینے کے لیے سپلیمنٹس سے زیادہ کیلشیم سے بھرپور غذاؤں پر انحصار کریں ۔ ادویات سے ملنے والے کیلشیم کے مقابلے میں قدرتی غذاؤں میں موجود کیلشیم زیادہ آسانی سے ہڈیوں میں جذ ب ہوجاتا ہے ۔ کیلشیم حاصل کرنے کے لیے بہترین غذا دہی ہے ۔ ایک پیالے دہی میں تقریباً450 ملی گرام کیلشیم ہوتا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی دہی میں وٹامن ڈی اور پروٹین بھی موجود ہوتاہے جو کہ کیلشیم جذب کرنے کے لیے ضروری ہیں ۔
ہرے پتے والی سبزیوں، سیم، نارنگی کے جوس، بادم اور تل کے بیجوں میں بھی وافر مقدار میں کیلشیم موجود ہوتا ہے ۔
کیلشیم لینے کے لیے سپلیمنٹس سے زیادہ کیلشیم سے بھرپور غذاؤں پر انحصار کریں ۔ ادویات سے ملنے والے کیلشیم کے مقابلے میں قدرتی غذاؤں میں موجود کیلشیم زیادہ آسانی سے ہڈیوں میں جذ ب ہوجاتا ہے ۔ کیلشیم حاصل کرنے کے لیے بہترین غذا دہی ہے ۔ ایک پیالے دہی میں تقریباً450 ملی گرام کیلشیم ہوتا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی دہی میں وٹامن ڈی اور پروٹین بھی موجود ہوتاہے جو کہ کیلشیم جذب کرنے کے لیے ضروری ہیں ۔
ہرے پتے والی سبزیوں، سیم، نارنگی کے جوس، بادم اور تل کے بیجوں میں بھی وافر مقدار میں کیلشیم موجود ہوتا ہے ۔
وٹامن ڈی
کیوں ضروری ہے؟
وٹامن ڈی کیلشیم کے ساتھ مل کر ہڈیوں کو مضبوط بناتاہے ۔ اس کے علاوہ وٹامن ڈی ایستھما اور ڈپریشن جیسے امراض سے بچاؤ میں بھی مفید ہے ۔ وٹامن ڈی کے استعمال سے قوت مدافعت بہتر ہوتی ہے ۔
جسم سورج کی کرنوں سے وٹامن ڈی حاصل کرتا ہے ۔ آج کے دور میں لوگ دھوپ میں نکلنا پسند نہیں کرتے اس لیے اکثر لوگ وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ اس کمی کو دور کرنے کے لیے معالج وٹامن سپلیمنٹس کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں ۔ اگر جسم کو ضرورت کے مطابق وٹامن ڈی ملتا رہے تو انسان بیماریوں سے دور رہتا ہے اور اس کے علاوہ اس کی مجموعی صحت پر بھی مثبتاثرات مرتبہوتے ہیں ۔
وٹامن ڈی کیلشیم کے ساتھ مل کر ہڈیوں کو مضبوط بناتاہے ۔ اس کے علاوہ وٹامن ڈی ایستھما اور ڈپریشن جیسے امراض سے بچاؤ میں بھی مفید ہے ۔ وٹامن ڈی کے استعمال سے قوت مدافعت بہتر ہوتی ہے ۔
جسم سورج کی کرنوں سے وٹامن ڈی حاصل کرتا ہے ۔ آج کے دور میں لوگ دھوپ میں نکلنا پسند نہیں کرتے اس لیے اکثر لوگ وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ اس کمی کو دور کرنے کے لیے معالج وٹامن سپلیمنٹس کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں ۔ اگر جسم کو ضرورت کے مطابق وٹامن ڈی ملتا رہے تو انسان بیماریوں سے دور رہتا ہے اور اس کے علاوہ اس کی مجموعی صحت پر بھی مثبتاثرات مرتبہوتے ہیں ۔
زیادہ استعمال کیسے نقصان دہ ہے؟
وٹامن ڈی کی خون میں 100ng/ml سے زیادہ مقدار صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے ۔ وٹامن ڈی کی زیادتی کے باعث ہڈیاں ضرورت سے زیادہ کیلشیم جذب کرلیتی ہیں جس سے پٹھوں میں درد ، موڈ میں غیر معمولی تبدیلی اور معدے میں تکلیف جیسے مسائل پیش آسکتے ہیں ۔ کیلشیم کی طرح وٹامن ڈی کے زیادہ استعمال سے بھی دل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔
وٹامن ڈی کی خون میں 100ng/ml سے زیادہ مقدار صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے ۔ وٹامن ڈی کی زیادتی کے باعث ہڈیاں ضرورت سے زیادہ کیلشیم جذب کرلیتی ہیں جس سے پٹھوں میں درد ، موڈ میں غیر معمولی تبدیلی اور معدے میں تکلیف جیسے مسائل پیش آسکتے ہیں ۔ کیلشیم کی طرح وٹامن ڈی کے زیادہ استعمال سے بھی دل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔
اس سے بچنے کے لیے کیا کریں؟
سب سے پہلے جسم میں وٹامن ڈی کا لیول معلوم کرنے لیے ڈاکٹر کے مشورے سے ٹیسٹ کرائیں ۔ اگر خون میں وٹامن ڈی کی مقدار زیادہ ہو تو عام طور پر ڈاکٹر اس کے متبادل کے طور پر وٹامن ڈی تھری کی سپلیمنٹس کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں ۔ اگر آپ کے جسم میں وٹامن ڈی کی مقدار زیادہ ہے تو کم از کم تین مہینے تک علاج جاری رکھیں ۔ وٹامن ڈی کا تناسب نارمل ہونے میں تقریباًچھ سے بارہ مہینے لگ جاتے ہیں ۔
سب سے پہلے جسم میں وٹامن ڈی کا لیول معلوم کرنے لیے ڈاکٹر کے مشورے سے ٹیسٹ کرائیں ۔ اگر خون میں وٹامن ڈی کی مقدار زیادہ ہو تو عام طور پر ڈاکٹر اس کے متبادل کے طور پر وٹامن ڈی تھری کی سپلیمنٹس کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں ۔ اگر آپ کے جسم میں وٹامن ڈی کی مقدار زیادہ ہے تو کم از کم تین مہینے تک علاج جاری رکھیں ۔ وٹامن ڈی کا تناسب نارمل ہونے میں تقریباًچھ سے بارہ مہینے لگ جاتے ہیں ۔
وٹامن اے
کیوں ضروری ہے؟
وٹامن اے کا استعمال آنکھوں کی بینائی کے لیے فائدے مند ہو تا ہے ۔ اس کے علاوہ اس سے جلد اور بال بھی اچھے ہوتے ہیں ۔ وٹامن اے بھی قوت مدافعت کو مضبوط کرتا ہے ۔ جن لوگوں میں وٹامن اے کی کمی ہوتی ہے انہیں رات کے وقت دیکھنے میں دشواری ہوتی ہے ۔ اس لے علاوہ ان کی جلد خشک ہو جاتی ہے اور بال بے جان لگنے لگتے ہیں ۔ وٹامن اے کی کمی کے شکار لوگ سانس کی نالی کے انفیکشن سے بھی دوچارہو سکتے ہیں ۔
وٹامن اے کا استعمال آنکھوں کی بینائی کے لیے فائدے مند ہو تا ہے ۔ اس کے علاوہ اس سے جلد اور بال بھی اچھے ہوتے ہیں ۔ وٹامن اے بھی قوت مدافعت کو مضبوط کرتا ہے ۔ جن لوگوں میں وٹامن اے کی کمی ہوتی ہے انہیں رات کے وقت دیکھنے میں دشواری ہوتی ہے ۔ اس لے علاوہ ان کی جلد خشک ہو جاتی ہے اور بال بے جان لگنے لگتے ہیں ۔ وٹامن اے کی کمی کے شکار لوگ سانس کی نالی کے انفیکشن سے بھی دوچارہو سکتے ہیں ۔
زیادہ استعمال کیسے نقصان دہ ہے؟
چربی حل کرلینے والا یہ وٹامن جسم میں فاسد مادہ بھی جمع کر سکتا ہے ۔ وٹامن اے کی جسم میں زیادتی سے زیادہ چربی گھلنے لگتی ہے جوکہ جسم سے باہر نہیں نکل پاتی ۔ وٹامن اے کی زیادتی سے سر میں درد اور جلد پر نشانات پڑنے لگتے ہیں ۔ اس کے علاوہ وٹامن اے کی زیادتی جسم سے وٹامن ڈی کو کم کرنے لگتی ہے جس سے آسٹیوپروسس ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔
جو لوگ وٹامن اے کے لیے ایک سے زیادہ اقسام کی سپلیمنٹس لے رہے ہوتے ہیں وہ اکثر وٹامن اے کی زیادتی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ جسم کو ایک دن میں 5000IUوٹامن اے کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمیں قدرتی غذاؤں اور سپلیمنٹس سے ملا کر حاصل کرنی ہوتی ہے ۔
چربی حل کرلینے والا یہ وٹامن جسم میں فاسد مادہ بھی جمع کر سکتا ہے ۔ وٹامن اے کی جسم میں زیادتی سے زیادہ چربی گھلنے لگتی ہے جوکہ جسم سے باہر نہیں نکل پاتی ۔ وٹامن اے کی زیادتی سے سر میں درد اور جلد پر نشانات پڑنے لگتے ہیں ۔ اس کے علاوہ وٹامن اے کی زیادتی جسم سے وٹامن ڈی کو کم کرنے لگتی ہے جس سے آسٹیوپروسس ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔
جو لوگ وٹامن اے کے لیے ایک سے زیادہ اقسام کی سپلیمنٹس لے رہے ہوتے ہیں وہ اکثر وٹامن اے کی زیادتی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ جسم کو ایک دن میں 5000IUوٹامن اے کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمیں قدرتی غذاؤں اور سپلیمنٹس سے ملا کر حاصل کرنی ہوتی ہے ۔
اس سے بچنے کے لیے کیا کریں؟
وٹامن اے حاصل کرنے کے لیے نارنجی رنگ کی سبزیوں اور پھلوں کا استعمال کریں جن میں گاجر، میٹھے آلو اور پپیتا شامل ہے۔ ہری سبزیاں اور انڈے کی زردی بھی وٹامن اے کے حصول کا ایک اچھا ذریعہ ہیں ۔
وٹامن اے حاصل کرنے کے لیے نارنجی رنگ کی سبزیوں اور پھلوں کا استعمال کریں جن میں گاجر، میٹھے آلو اور پپیتا شامل ہے۔ ہری سبزیاں اور انڈے کی زردی بھی وٹامن اے کے حصول کا ایک اچھا ذریعہ ہیں ۔
مختصراًیہ کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ غذائیت قدرتی غذاؤں سے حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اگر آپ سپلیمنٹس کااستعمال کرتے ہیں تو معالج سے باقائدگی سے اپنا چیک اپ کراتے رہیں اور جسم میں غذائیت کے سہی تناسب کے بارے میں باخبر رہیں ۔