Showing posts with label Health care. Show all posts
Showing posts with label Health care. Show all posts

Tuesday, May 25, 2021

دار چینی

ﺩﺍﺭﭼﯿﻨﯽ
CINNAMON BARK
ﺩﺍﺭ ﭼﯿﻨﯽ ﺍﯾﮏ ﺩﺭﺧﺖ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺩﺍﺭ ﭼﮭﺎﻝ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮨﺮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﻡ ﻣﺼﺎﻟﺤﻮ ﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﻮ ﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﺳﮯ ﭘﯿﺲ ﮐﺮ ﺳﺎﻟﻦ ﮐﻮ ﺧﻮ ﺵ ﺫﺍﺋﻘﮧ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺗﺎﮨﮯ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﻗﺪﯾﻢ ﺳﮯ ﺩﺍﺭ ﭼﯿﻨﯽ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺩﻭﺍﺋﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ

Thursday, May 24, 2018

ڈینڈرف سے آزاد صحت مند بال

سرکی خشکی کیا ہے؟
سر کی خشکی، جسے انگریزی میں ڈینڈرف(Dandruff)کہا جاتا ہے، سر کی جلد میں پیدا ہونے والی ایسی کیفیت کا نام ہے، جس کے باعث وہاں بھوسی جیسے سفید چھلکے پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہ چھلکے سطحِ سر پر جمع ہوتے ہوتے، ذرات کی شکل میں شانوں پر گرنے لگتے ہیں۔ سرکی خشکی کو ایک طرح کا انفیکشن بھی قرار دیا جاسکتا ہے، تاہم اسے صرف ایک انفیکشن سمجھنا دُرست نہیں ہوگا۔یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے انسان کو اکثر و بیشتر شرمندگی سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے
جب آپ کو اپنے شانوں پر بھوسی جیسے چھلکوں کا چھڑکاؤ نظر آتا ہے، اور سر میں بار بار کھُجلی محسوس ہوتی ہے تو آپ خود کو سماجی طور پر پریشان محسوس کرتے ہیں۔ ڈینڈرف، سر کی تکلیف کی ایک ایسی شکل ہے، جس سے ساری دنیا کے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ ریسرچ کے مطابق، اٹھارہ سال کی عمر سے زیادہ کے تمام مردوں اور عورتوں کی بیس فی صد تعداد ڈینڈرف میں مبتلا ہوتی ہے۔ اس میں سے پانچ فی صد لوگ ڈینڈرف کے شدید حملے کا شکار ہوتے ہیںاور ان کے سروں سے بے تحاشہ بھوسی جھڑتی ہے۔
ڈینڈرف کی وجوہات
سرکی جلد میں پیدا ہونے والی خشکی عموماً جسمانی کمزوری یا خون کی کمی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ جب جسم کی قوتِ مدافعت کم ہوجاتی ہے تو زیرِ جلد چکنائی پیدا کرنے والے غدودوں کی کارکردگی کا توازن بگڑ جاتا ہے اور ان سے خارج ہونے والی رطوبت کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ یہی رطوبت جلد پر باریک جھلی کی طرح جم جاتی ہے، جو زیادہ گھمبیر ہوجائے تو فنگس (Fungus)میں بدل جاتی ہے۔
سرکی قدرتی چکنائی وہ تیل ہے جسے Sebum کہا جاتا ہے۔ اس کے غدود سرکی جلد کے عین نیچے واقع ہوتے ہیں۔ گندگی اور غیرمعیاری شیمپو کے استعمال سے سیبم کی پیداوار میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
ڈینڈرف پیدا ہونے میں فنگس اور سیبم کا ملاپ سب سے بڑی وجہ ہوتا ہے۔
اس کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ فنگس ایک طرح کی پھپھوندی ہے، جو سر کی نارمل جلد پر بھی پائی جاتی ہےاور عام طور پر کسی نقصان کا باعث نہیں بنتی تاہم سرکی جلد سے پیدا ہونے والا اضافی تیل (Sebum) پھپھوندی کے لیے زبردست خوراک ثابت ہوتا ہے اور یوں سر کی جلد پر فنگس کی افزائش شروع ہوجاتی ہے۔ یہ فنگس سر کی جلد سے جھڑنے والے مردہ خلیات میں اضافہ کردیتا ہے اور سر کی مردہ کھال سے جھڑنے والے چھلکے پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔
اسٹریس اور ہارمونز کی تبدیلیاں بھی خشکی کی افزائش میں حصہ دار بنتی ہیں۔
سرکی خشکی کا علاج
ایک فرد جو غذا کھاتا ہے، وہ اس کی صحت، اس کے بالوں کی صحت، اوراس کی جلد کی صحت سے جھلکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سرکی جلد کی خشکی سے جان چھڑانے کے لیے سب سے پہلے آپ کو اپنی غذا کا جائزہ لینا ہوگا۔ متوازن غذائیں کھائیں۔ زنک، اومیگا تھری فیٹی ایسڈز، وٹامن اے، بی اور وٹامن ای کو خوراک میں شامل کریں۔پانی کا استعمال زیادہ کریں۔
اینٹی ڈینڈرف شیمپو
عمومی طور پر لوگ سرکی خشکی کو قابو میں رکھنے کے لیے کسی اچھے اور معیار اینٹی ڈینڈرف شیمپو کا استعمال کرتے ہیں، جو اچھا خاصا مؤثر ثابت ہوتا ہے۔ شیمپو کرتے وقت اچھی طرح سر کا مساج کریں، تاکہ سر کی جلد کےساتھ آپ کے بال بھی صاف ہوجائیں۔ مارکیٹ میں دستیاب عمومی اینٹی ڈینڈرف شیمپو اس وقت تک مؤثر ثابت ہوتے ہیں، جب تک ان کا استعمال جاری رکھا جائے۔ اینٹی ڈینڈرف شیمپو کا استعمال ترک کرتے ہی خشکی پھرنمودار ہونے لگتی ہے۔ اگر آپ کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے تو مزید رہنمائی کے لیے آپ کو اسپیشلسٹ کے ساتھ رجوع کرنا چاہیے۔
گھریلو ٹوٹکے
سرکا خشک مساج: بالوں کو روزانہ برش کیا جائے۔ اس سے بھوسی اُترنے کے علاوہ سر کی جلد میں خون کی گردش تیز ہو جاتی ہے۔ سر کی جلد کا خشک مساج بھی روزانہ کرنا چاہیے۔ یہ مساج انگلیوں کی پوروں سے ایک ترتیب کے ساتھ پورے سر پر کیا جائے۔
ناریل کا تیل:رات کو سوتے وقت زیتوں یا ناریل کا تیل خوب سر میں جذب کرایا جائے۔ اس طرح بھوسی کی پپڑی اچھی طرح پھول کر جلد سے الگ ہونے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ صبح اُٹھ کر آملہ، سکا کائی اور میتھی کے بیجوں کا سفوف جسے رات بھر پانی میں بھگو لیا ہو، بالوں کی جڑوں میں اچھی طرح لگا کر نیم گرم پانی سے سر دھو لیا جائے۔ اس طرح خشکی دور ہو جائے گی۔ یہ عمل ہفتے میں دو تین بار کیا جائے۔
بیسن اور چقندر: ایک اور تدبیر یہ ہے کہ سر کو چقندر کے پانی یا بیسن سے دھو کر کچھ روز روغنِ گل میں خالص سرکہ ملا کر اچھی طرح لگائیں اور صبح بیسن، گندم کی بھوسی، میتھی کے بیج، رائی اور خطمی کے سفوف میں عرق گلاب اور سرکہ ملا کر اچھی طرح سے دھو لیا کریں اور بال خشک ہونے پر روغن چنبیلی یا روغن گل لگائیں۔
دھوپ میں رہنا: خشکی کا مقابلہ کرنے کے لیے صبح کے وقت دھوپ میں کچھ دیر ننگے سر رہنا بھی مدد کرتا ہے۔
ان گھریلو ٹوٹکوں کے استعمال سے آپ سرکی خشکی میں نمایاں کمی محسوس کریں گے۔

Tuesday, May 22, 2018

ہلدی بے شمارخوبیوں کا حامل ایک اہم مصالحہ

پاکستان میں مقبول ترین مصالحہ ’ہلدی‘ قدرتی طور پر جراثیم کش خصوصیات کی حامل ہے جو کہ خراشوں، زخموں اور جلنے وغیرہ کے لیے مفید ہے، یہ ایک فوری مرہم کا کام کرتی ہے، خون کے لوتھڑوں کی روک تھام اور زخم پر لگانے کی صورت میں نئے خلیات کی افزائش میں مدد دیتی ہے۔

چھوت کی بیماریوں سے تحفظ

طاقت ور اینٹی بایوٹک ہونے کے ساتھ ساتھ ہلدی چھوت کی بیماریاں جیسے ’ای کولی‘ کی بھی روک تھام کرتی ہے۔ یہ بیکٹیریا عام طور پر صحت مند انسانوں اور جانوروں کے اندر پایا جاتا ہے تاہم آلودہ پانی یا گائے کے کچے پکے گوشت کے ذریعے جسم میں داخل ہونے پر شدید انفیکشن، معدے کے درد، الٹیوں، خونی ہیضے اور آنتوں کی اکڑن کا باعث بنتا ہے۔

جگر کی صفائی

ہم روزمرہ کی زندگی میں زیادہ خوراک کھا لیتے ہیں عام طور پر یہ خوراک کھلی فضا، زہریلے مواد، کیمیکلز، کیڑے مار ادویہ، آلودہ پانی، بھاری دھاتوں کی وجہ سے مضر صحت ہوجاتی ہیں۔ یہ زہر ہمارے جگر، گردوں، لمفی نظام اور خاص طور پر شمحی بافتوں (فیٹ ٹشوز) میں جمع ہو جاتے ہیں۔
ان زہریلے مواد کا انبار کاربوہائیڈریٹس، پروٹین اور غذائیت کو ہضم کرنے میں مزاحمت کرتا ہے۔ یہ مواد ہمارے جسم میں آکسیجن کی مقدار بھی کم کرتے ہیں جس سے ایک تیزابی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور ہم امراض کا آسان نشانہ بن جاتے ہیں۔ ہلدی کا استعمال ان زہریلے اثرات کو ختم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ گندا انبار کم کرکے جگر کو ٹھیک رکھتا ہے۔

سوجن میں کمی

ہلدی کا روزانہ استعمال جسم میں سوجن قابو میں رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ اس کی زرد رنگت میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس جسم کو پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ کرتے اور علامات کا خاتمہ کرتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق ہلدی کا موزانہ مختلف ادویہ جیسے موٹرین، بروفین (آئی بپروفین) اور اسپرین سے کیا جاسکتا ہے۔ ظاہر ہے اس میں قدرتی خصوصیات زیادہ ہوتی ہیں اور دواؤں کی طرح زہر یا سائیڈ افیکٹس نہیں ہوتے۔

مضر صحت کولیسٹرول کی روک تھام

ہلدی سادہ چیز ہے مگر وہ بلڈ شوگر کی سطح متوازن رکھنے، دن بھر میں توانائی کی شرح کو برقرار رکھنے اور بہتر مزاج پیدا کرنے میں مدد دیتی ہے۔ ہماری جدید غذائیں، چاہے کتنی ہی ذائقہ دار کیوں نہ ہوں، نقصان دہ چربی اور کولیسٹرول سے بھرپور ہوتی ہیں جو ہمارے لیے ٹھیک نہیں۔ کولیسٹرول کی دو اقسام ہیں:  ایل ڈی ایل (لو ڈینسیٹی لیپو پروٹین) یعنی ‘مضر صحت کولیسٹرول’ اور ایچ ڈی ایل (ہائی ڈینسیٹی لیپو پروٹین)  یعنی ‘اچھا کولیسٹرول’. خراب چربی برے کولیسٹرول پر مشتمل ہوتی ہے۔
کولیسٹرول کے مرض کی صورت میں اکثر اینٹی کولیسٹرول ادویات تجویز کی جاتی ہیں۔ ہلدی زہر سے پاک ہربل حل ہے جو کولیسٹرول کی سطح تیزی سے کم کرنے، زیادہ مؤثر اور طویل المیعاد بنیادوں پر شریانوں کی اکڑن یا بلاک ہونے سمیت امراض قلب کی روک تھام کرتی ہے۔

ہلدی استعمال کرنے کا ایک طریقہ

ہلدی استعمال کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ تازہ سبزیوں مثلاً کٹی ہوئی شکر قندی، گوبھی، مٹر، پالک کو زیتون کے تیل اور ہلدی کے ساتھ ملالیں۔ پھر انہیں 400 ڈگری پر پکا لیں۔ بعد ازاں انہیں آپس میں ملالیں اور بس۔ آپ اسے شام میں منہ چلانے یا سائیڈ ڈش کے طور پر رکھ سکتے ہیں اور اگر دل چاہے تو رات کا کھانا بنالیں۔ آپ چاہیں تو سبزیوں کو تل کر بھی استعمال کرسکتے ہیں۔

ہلدی کی چائے

ایک کپ پانی ابالیں اور پھر اس میں آدھہ چمچہ ہلدی ملائیں۔ اب اسے 10 منٹ تک پکنے دیں اور پینے سے قبل چھان لیں۔ اس میں اپنی پسند کی مٹھاس بھی آپ شامل کرسکتے ہیں۔

جلد پر لگائیں

ہلدی کو جب جلد پر لگایا جاتا ہے تو یہ سوجن اور خارش میں کمی لاتی ہے۔ کچھ مقدار میں ہلدی کو کسی بھی ٹھنڈی خاصیت والے تیل (ناریل کے تیل، بادام، کیسٹر اور تلوں کے تیل میں ملائیں) اور پھر جلد پر لگائیں۔ 15 منٹ بعد اسے دھو لیں۔ یہ عارضی طور پر آپ کی جلد پر دھبہ ڈال دے گی۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ایسی جگہ لگائیں جو آسانی سے ڈھکی جاسکیں۔ کچھ دیر کے لیے جلد کے زرد ہونے پر فکرمند نہ ہوں۔

Tuesday, December 1, 2015

بلڈ پریشر کو قابو میں رکھنے کے 10 آزمودہ نسخے

ہنگامہ خیز اور مصروف زندگی نے بلڈ پریشرکی زیادتی یعنی ہائبر ٹینشن کو معمول بنادیا ہے جسے خاموش قاتل مرض بھی کہا جاتا ہے۔ میز پر بیٹھ کر کام کرتے رہنا، غیرمتوازن خوراک اور ورزش کی کمی سے نوجوان نسل بھی بلڈ پریشر کے امراض کی شکار ہے اس کے لیے ڈاکٹر اور غذائی ماہرین 10 حیرت انگیز تجاویز پیش کرتے ہیں جن پر عمل کرکے بلڈ پریشر بلند ہونے کے خطرے کو کم کیا جاسکتا ہے۔
http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/11/coffee.jpg
کیفین سے دور رہیں: کیفین کے مشروبات کو کم کرکے بلڈ پریشر کے خطرات کو بہت حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ کافی، سافٹ ڈرنکس، چائے اور انرجی ڈرنکس سب مشروبات میں ہی کیفین موجود ہوتی ہے اس  لیےاگر 3 کپ یعنی 500 ملی گرام کیفین استعمال کی جائے تو اس سے بلڈ پریشر بڑھ سکتا ہے جب کہ صبح پی جانے والی کیفین کے اثرات رات تک برقرار رہتے ہیں۔
http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/11/beetroot.jpg
چقندر کا رس: حالیہ دنوں میں چقندر کے بارے میں حیرت انگیز انکشافات ہوئے ہیں کیونکہ اس کا رس دل کو مضبوط کرتا ہے اور بلند فشارِ خون کو کم کرتا ہے۔ اگر آپ روزانہ 250 ملی لیٹر چقندر کا جوس پئیں تو اس سے بلڈ پریشر میں اضافے کی شرح 7 فیصد تک کم کی جاسکتی ہے۔ چقندر میں نائٹریٹ کی وسیع مقدار موجود ہوتی ہے جو خون کی روانی کو باقاعدہ بناتی ہے۔
http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/11/jonging-di-lapangan-karebos.jpg
جاگنگ کے لیے وقت نکالیں:  ہرہفتے اگر ایک گھنٹے تک جاگنگ کی جائے تو اس سے عمر بڑھتی ہے اور بلڈ پریشرکے خطرات کو ٹالا جاسکتا ہے۔ ورزش اور جاگنگ سے آکسیجن نفوز بڑھ جاتا ہے جب کہ خون کا پریشر کم ہوجاتا ہے جس سے خون کا پمپ کرنا آسان اوردل مضبوط ہوجاتا ہے۔
http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/11/yugurt.jpg
دہی کا استمعال: روزانہ ایک پیالہ دہی کھانے سے بلڈ پریشر کا خطرہ 3 گنا کم ہوجاتا ہے اس لیے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ دہی سے قدرتی طور پر بننے والا کیلیشیم خون کی نالیوں کو نرم بنا کر تھوڑا سا پھیلا دیتا ہے جس سے خون کا پریشر کم رہتا ہے۔
http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/11/bananas-on-a-wooden-table.jpg
کیلے کا استعمال: پوٹاشیم سے بھرپور کیلے کا استعمال اور نمک کی کمی کرکے ہر سال ہزاروں زندگیوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ پوٹاشیم جسم میں خون کو متوازن رکھ کر بلڈ بریشر کو کنٹرول کرتا ہے۔
http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/11/salt.jpg
نمک کھانے سے نفرت کریں: خون میں نمک کی مقدار بڑھنے سے شریانوں میں خون کا پریشر اور حجم بڑھ جاتا ہے جب کہ بھنی اور باربی کیو غذائیں 80 فیصد نمک اپنے اندر رکھتی ہیں جس سے بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے۔
http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/11/Heart.jpg
وزن کو کم کریں: تحقیق میں کہا گیا ہے کہ صرف چند کلوگرام وزن کم کرنے سے بلڈ پریشر کم ہوجاتا ہے کیوں کہ بڑھا ہوا وزن دل کے کام کو سخت بنا دیتا ہے جس سے اسٹرین اور بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے۔
http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/11/cigrette.jpg
سگریٹ نوشی چھوڑ دیں: سگریٹ میں موجود نیکوٹین جسم کے اندراینڈرن لاین کو بڑھاتا ہے جس سے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے جو بلڈ پریشر بڑھنے کا باعث بن جاتی ہے۔
http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/11/work.jpg
کام کم کریں: دفاتر میں ہفتہ وار 40 گھنٹے کام کرنے سے ہائیپر ٹینشن کا خطرہ 14 فیصد بڑھ جاتا ہے بالخصوص اوور ٹائم کرنے والے افراد میں یہ خطرہ زیادہ ہوتا ہے اور جو لوگ 51 گھنٹے کام کرتے ہیں ان میں بلڈ پریشر زیادہ ہونے کا خطرہ 29 فیصد بڑھ جاتا ہے۔
http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/11/sleeping.jpg
خراٹے کم کریں: جو لوگ سونے کے دوران زیادہ خراٹے لیتے ہیں ان کی نیند زیادہ متاثر ہوتی ہے جس سے ان کا بلڈ پریشر واضح طور پر بڑھ جاتا ہے اس لیے کوشش کی جائے کہ اس کا علاج کیا جائے تاکہ بلڈ پریشر کنٹرول میں رکھا جا سکے۔

دن بھر کی تھکاوٹ کے بعد توانائی بحال کرنے کے آسان اور مؤثر طریقے

جدید دور میں انسانی مصروفیت اتنی بڑھ گئی ہے کہ ہرگزرنے والا لمحہ انسان کو مزید مصروف بنا رہا ہے جس سے نہ صرف جسمانی بلکہ دماغی تھکاوٹ بھی بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کی اوسط عمر بھی کم ہورہی ہے اس لیے اس تھکاوٹ کے بعد اپنی توانائی کو بحال کرنا ایک پریشان کن مسئلہ ہے لیکن کچھ آسان نسخوں کو استعمال کرکے اس پریشانی سے نجات پائی جا سکتی ہے۔
مساج کریں: دن بھر کے کام کاج سے انسان کے ہاتھ پاؤں اور سر سمیت جسم کے کئی حصے بری طرح متاثر ہوتے ہیں لہٰذا ان حصوں پر مساج کرنے سے اسٹریس سے نجات ملتی ہے اور کھوئی ہوئی توانائی بحال ہونے لگتی ہے۔ مساج کے دوران تیزی سے پاؤں کے خاص حصوں کو دبانے سے جسم توانا محسوس کرتا ہے لیکن مساج کا عمل کسی ماہر سے کرانا چاہیے تبھی اس کے بہتر نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔
میوزک تھراپی: ٹرین یا پھر رش والی ٹریفک کے بعد ذہنی طور تھکاوٹ ہوجاتی ہے ایسے میں اپنے پسندیدہ میوزک کو سننے سے ذہن ہلکا محسوس کرنے لگتا ہے۔ ماہرین نفسیتات کا کہنا ہے کہ جب کوئی انسان اپنا پسندیدہ گانا اونچی آواز میں گاتا ہے تو خوشی کے ہارمونز خارج ہوتے ہیں جو جسم میں نئی توانائی پیدا کردیتے ہیں تاہم صرف میوزک سننا کافی نہیں بلکہ ساتھ اس کے گانا بھی اہم ہے۔
چیونگم کھائیں: تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ چیونگم کھانے سے انسانی چستی کا لیول بڑھ جاتا ہے اور اس سے موڈ بھی بہتر ہوجاتا ہے جب کہ اس سے توانائی اور دل کی دھڑکن بھی بڑھ سکتی ہے۔
تیز قدموں سے چلیں: تھکاوٹ سے نجات اور کھوئی توانائی کی بحالی کے لیے تیز واک کریں اس لیے اس پر کی گئی بہت سی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ روزانہ 20 منٹ کی جسمانی ورزش یا واک انسانی دل کو مضبوط بناتی ہے اور جسم میں توانائی بڑھا دیتی ہے۔
سورج کی روشنی میں وقت گزاریں: دنیا بھر میں کی گئی کئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ سورج کی روشنی میں کم اور گھر میں زیادہ وقت گزارتے ہیں وہ زیادہ تھکاوٹ کا شکار ہوتے ہیں ان لوگوں کے مقابلے میں جو زیادہ وقت سورج کی روشنی میں گزارتے ہیں۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ سورج کی روشنی میں 15 سے 20 منٹ تک تیز واک کرنا چاہیے جب کہ اسی طرح گھر کی کھڑکیوں کے پردے ہٹا کر رکھیں تاکہ سورج کی روشنی اندر آسکے۔
سبزیوں کا استعمال بڑھائیں: سبزیاں با لخصوص پالک انسانی غذا کو توانئی میں تبدیل کرتی ہے جب کہ روزانہ سلاد کا استعمال بھی توانائی کو بڑھاتا اور تھکاوٹ کو دور کرنے کا باعث بنتا ہے۔

Sunday, November 1, 2015

اچھی غذائیں،صحت اور خوب صورتی کی ضامن

چہرہ اور بال جہاں ہماری خوب صورتی کے ضامن ہیں وہیں ہماری صحت کا تعیّن بھی کرتے ہیں۔ جب ہم اندرونی طوپر صحتمند اور طاقت ور ہوں گے تو یقیناًہمارا چہرہ بھی کھلا کھلا اور شاداب ہوگا۔
آج کل کی خواتین ہزاروں روپے اپنے میک اپ اور فیشل پر برباد کردیتی ہیں کہ کسی طرح چہرہ خوب صورت نظر آئے۔ مگر وہ یہ بات نہیں جانتیں کہ یہ چیزیں پائیدار نہیں صرف اور صرف وقتی ہیں۔بعض خواتین چہرے پر موجود جھریاں اور مرجھائے ہوئے چہرے کے حوالے سے فکرمند دکھائی دیتی ہیں اور کچھ خواتین حتیٰ کہ مرد حضرات بھی نت نئی مہنگی مہنگی کریمیں خود کو گورا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اس کا نتیجہ صفر ہی نکلتا ہے۔ اگر وہ اتنا روپیہ اپنی خوراک پر اور اتنا وقت غذائیت اور صحت بخش مشروبات استعمال کرنے میں صرف کریں تو یقیناًبہت اچھے نتائج حاصل ہوں گے۔
رنگ گورا ہو یا سانولا جب چہرے پر تازگی اور رونق ہی نہیں ہوگی تو نہ ہی اس میں کوئی کشش ہوگی نہ ہی وہ جاذبِ نظر لگے گا۔ذرا سا کام کِیا اور تھکاوٹ کے چہرے سے ظاہر ہوگئی۔تھوڑی سی ٹینشن ملی اور چہرہ پیلا پڑگیا۔ کیاہے یہ سب؟ہماری اندرونی اور جسمانی کمزوری ہی تو ہے۔ پہلے ٹین ایجرلڑکیوں کو کسی میک اپ، کسی فیشل کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ کیونکہ وہ ایسی غذائیں استعمال کرتی تھیں کہ جسمانی طاقت ان کے چہر ے سے نمایاں ہوتی تھی۔ کھلی کھلی رنگت ،پُررونق اور شاداب چہرہ، مگر اس کے برعکس آج کل کی ٹین ایجر لڑکیاں اپنی اسکن کی وجہ سے اپنی عمر سے بڑی نظر آتی ہیں۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ جو چیزیں وہ اپنی غذا میں استعمال کرتی ہیں اس سے چہرہ مرجھایا ہوا اور بد رونق نظر آتا ہے۔ لہٰذا اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم خوب صورت اور شاداب نظر آئیں تو ہزاروں روپے میک اپ اور کریموں پر برباد کرنے سے پہلے ضرور سوچ لیں کہ سب چیزیں جز وقتی ہیں۔ہماری صحت اچھی ہوگی تو ہمارا چہرہ ویسی ہی شاداب اور خوب صورت نظر آئے گا اور یہ خوب صورتی یقیناًپائیدا ہوگی۔
خواتین کو ویسے ہی اپنی غذا کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے کیونکہ ان کی فیملی کو سب سے زیادہ توقعات انھی سے ہوتی ہیں، سارا دن نوکرانیوں کی طرح کام کرنے کے باوجود ان کے شوہر یہی چاہتے ہیں کہ جب وہ شام کوکام سے گھر واپس لوٹیں تو بے شک وہ خود تھکے ہوئے دکھائی دیں مگر ان کی بیگمات ہشاش بشاش اور کھلے کھلے چہرے کے ساتھ ان کا استقبال کریں۔سو مجبوراً بے چاری خواتین سارا دن تھکنے کے بعد فوری رنگ گورا کرنے والی اور لپ اسٹک لگا کر چہرے پر مسکراہٹ سجائے شوہر کا استقبال کرتی ہیں تاکہ وہ خوب صورت نظر آئیں۔ اگر اٹھارہ گھنٹے کام کرنے کے دوران وہ صرف آدھا گھنٹہ بھی اپنے لیے نکال لیں تو یقیناًصورت حال مختلف ہوگی۔
کھیرا ایک سستی اور بہت مفید غذاہے۔ چہرے کی جلد نکھارنے کے لیے نہ صرف یہ کہ اسے سلاد کے طور پر کھائیں ، بلکہ اس کا گودا مسل کر چہرے پر لگائیں۔ اسی طرح ٹماٹر کا استعمال بھی ہمارے جسم و چہرے کے لیے ازحد فائدہ مند ہے۔ آج کل کیلے وافر مقدار اور مناسب قیمت میں بازار میں موجود ہیں جو جسمانی کمزوری دور کرنے کے ساتھ ساتھ اسکن کے لیے بھی بہت فائدہ مند ہیں، جو لڑکیاں اپنے چہرے پرموجود دانوں کی وجہ سے پریشان ہیں انھیں چاہیے کہ وہ کیلے وافر مقدار میں کھائیں۔ بعض افراد یہ سمجھتے ہیں کہ کیلا مٹاپے کا سبب بنتا ہے لیکن یہ بات درست نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کا استعمال جسم میں کولیسٹرول بڑھنے نہیں دیتا۔اسی طرح گاجر کا استعمال نہ صرف یہ کہ ہمارے جسم میں نیا خون بناتا ہے بلکہ چہرے کو بھی شاداب رکھتا ہے۔
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی غذا میں کچی سبزیوں کا استعمال ضرور رکھیں، تاکہ جسم میں وٹامن اور کیلشیم کی کمی دور ہوسکے اور ہم اندرونی طور پر طاقتور ہو سکیں ۔


کیلشم اوروٹامنز کی کمی کی طرح زیادتی بھی صحت کے لیے نقصان دہ -

وٹامنز اور کیلشیم کی سپلیمنٹس ہم میں سے اکثر لوگ روز لیتے ہونگے۔ ان ادویات کے استعمال کا مشورہ معالج جسم میں ضروری غذائیت کی کمی کو دور کرنے کے لیے دیتے ہیں ۔ یہ سپلیمنٹس صحت کے لیے فائدہ مند ہوتی ہیں ۔ البتہ ان کا زیادہ استعمال صحت پر مضر اثرات بھی مرتب کر سکتا ہے ۔ ڈاکٹروں کے مطابق یہ ضروری نہیں کہ وٹامنز اور کیلشیم سپلیمنٹس کا ضرورت سے زیادہ استعمال آپ کے لیے بہتر ہی ہو۔
کیلشیم
کیوں ضروری ہے؟
کیلشیم ہڈیوں کی مظبوطی اور نشونما میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ کئی دہائیوں سے ماہرین آسٹیوپروسس یعنی ہڈیوں کے بھربھرا کردینے والی بیماری سے بچاؤ کے لیے کیلشیم سپلیمنٹس تجویز کرتے آرہے ہیں ۔ ہڈیوں کو پتلا کردینے والا یہ مرض فریکچرز کا سبب بنتا ہے ۔ دراز عمر افراداور خواتین کو اس مرض میں مبتلا ہونے کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں ۔ اگر شروع سے ہی کیلثیم کی سہی مقدار ہڈیوں کو مل جائے تو عمر بڑھنے پر انسان اس بیماری سے محفوظ رہتا ہے ۔
زیادہ استعمال کیسے نقصان دہ ہے؟
کئی تحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ جو مرد اورعورتیں ایک دن میں ایک ہزار سے بارہ ہزار ملی گرامز سے زیادہ کیلشیم لیتے ہیں ان کے لیے دل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ جسم میں وٹامن ڈی کی کمی ہو تو کیلشیم ہڈیوں میں جذب نہیں ہو پاتا ۔ جو کیلشیم جذب نہیں ہوتا وہ خون کی نالیوں میں جاکر پھنس جاتا ہے جس کے باعث دل کے دورے کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ ضرورت سے زیادہ کیلشیم لینے سے پٹھوں میں درد، پیٹ میں درد اور گردوں میں پتھری جیسے مسائل بھی پیش آسکتے ہیں ۔
اس سے بچنے کے لیے کیا کریں؟
کیلشیم لینے کے لیے سپلیمنٹس سے زیادہ کیلشیم سے بھرپور غذاؤں پر انحصار کریں ۔ ادویات سے ملنے والے کیلشیم کے مقابلے میں قدرتی غذاؤں میں موجود کیلشیم زیادہ آسانی سے ہڈیوں میں جذ ب ہوجاتا ہے ۔ کیلشیم حاصل کرنے کے لیے بہترین غذا دہی ہے ۔ ایک پیالے دہی میں تقریباً450 ملی گرام کیلشیم ہوتا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی دہی میں وٹامن ڈی اور پروٹین بھی موجود ہوتاہے جو کہ کیلشیم جذب کرنے کے لیے ضروری ہیں ۔
ہرے پتے والی سبزیوں، سیم، نارنگی کے جوس، بادم اور تل کے بیجوں میں بھی وافر مقدار میں کیلشیم موجود ہوتا ہے ۔
وٹامن ڈی
کیوں ضروری ہے؟
وٹامن ڈی کیلشیم کے ساتھ مل کر ہڈیوں کو مضبوط بناتاہے ۔ اس کے علاوہ وٹامن ڈی ایستھما اور ڈپریشن جیسے امراض سے بچاؤ میں بھی مفید ہے ۔ وٹامن ڈی کے استعمال سے قوت مدافعت بہتر ہوتی ہے ۔
جسم سورج کی کرنوں سے وٹامن ڈی حاصل کرتا ہے ۔ آج کے دور میں لوگ دھوپ میں نکلنا پسند نہیں کرتے اس لیے اکثر لوگ وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ اس کمی کو دور کرنے کے لیے معالج وٹامن سپلیمنٹس کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں ۔ اگر جسم کو ضرورت کے مطابق وٹامن ڈی ملتا رہے تو انسان بیماریوں سے دور رہتا ہے اور اس کے علاوہ اس کی مجموعی صحت پر بھی مثبتاثرات مرتبہوتے ہیں ۔
زیادہ استعمال کیسے نقصان دہ ہے؟
وٹامن ڈی کی خون میں 100ng/ml سے زیادہ مقدار صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے ۔ وٹامن ڈی کی زیادتی کے باعث ہڈیاں ضرورت سے زیادہ کیلشیم جذب کرلیتی ہیں جس سے پٹھوں میں درد ، موڈ میں غیر معمولی تبدیلی اور معدے میں تکلیف جیسے مسائل پیش آسکتے ہیں ۔ کیلشیم کی طرح وٹامن ڈی کے زیادہ استعمال سے بھی دل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔
اس سے بچنے کے لیے کیا کریں؟
سب سے پہلے جسم میں وٹامن ڈی کا لیول معلوم کرنے لیے ڈاکٹر کے مشورے سے ٹیسٹ کرائیں ۔ اگر خون میں وٹامن ڈی کی مقدار زیادہ ہو تو عام طور پر ڈاکٹر اس کے متبادل کے طور پر وٹامن ڈی تھری کی سپلیمنٹس کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں ۔ اگر آپ کے جسم میں وٹامن ڈی کی مقدار زیادہ ہے تو کم از کم تین مہینے تک علاج جاری رکھیں ۔ وٹامن ڈی کا تناسب نارمل ہونے میں تقریباًچھ سے بارہ مہینے لگ جاتے ہیں ۔
وٹامن اے
کیوں ضروری ہے؟
وٹامن اے کا استعمال آنکھوں کی بینائی کے لیے فائدے مند ہو تا ہے ۔ اس کے علاوہ اس سے جلد اور بال بھی اچھے ہوتے ہیں ۔ وٹامن اے بھی قوت مدافعت کو مضبوط کرتا ہے ۔ جن لوگوں میں وٹامن اے کی کمی ہوتی ہے انہیں رات کے وقت دیکھنے میں دشواری ہوتی ہے ۔ اس لے علاوہ ان کی جلد خشک ہو جاتی ہے اور بال بے جان لگنے لگتے ہیں ۔ وٹامن اے کی کمی کے شکار لوگ سانس کی نالی کے انفیکشن سے بھی دوچارہو سکتے ہیں ۔
زیادہ استعمال کیسے نقصان دہ ہے؟
چربی حل کرلینے والا یہ وٹامن جسم میں فاسد مادہ بھی جمع کر سکتا ہے ۔ وٹامن اے کی جسم میں زیادتی سے زیادہ چربی گھلنے لگتی ہے جوکہ جسم سے باہر نہیں نکل پاتی ۔ وٹامن اے کی زیادتی سے سر میں درد اور جلد پر نشانات پڑنے لگتے ہیں ۔ اس کے علاوہ وٹامن اے کی زیادتی جسم سے وٹامن ڈی کو کم کرنے لگتی ہے جس سے آسٹیوپروسس ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔
جو لوگ وٹامن اے کے لیے ایک سے زیادہ اقسام کی سپلیمنٹس لے رہے ہوتے ہیں وہ اکثر وٹامن اے کی زیادتی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ جسم کو ایک دن میں 5000IUوٹامن اے کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمیں قدرتی غذاؤں اور سپلیمنٹس سے ملا کر حاصل کرنی ہوتی ہے ۔
اس سے بچنے کے لیے کیا کریں؟
وٹامن اے حاصل کرنے کے لیے نارنجی رنگ کی سبزیوں اور پھلوں کا استعمال کریں جن میں گاجر، میٹھے آلو اور پپیتا شامل ہے۔ ہری سبزیاں اور انڈے کی زردی بھی وٹامن اے کے حصول کا ایک اچھا ذریعہ ہیں ۔
مختصراًیہ کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ غذائیت قدرتی غذاؤں سے حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اگر آپ سپلیمنٹس کااستعمال کرتے ہیں تو معالج سے باقائدگی سے اپنا چیک اپ کراتے رہیں اور جسم میں غذائیت کے سہی تناسب کے بارے میں باخبر رہیں ۔

Tuesday, October 27, 2015

40 Ways To Live A Happy Healthy Life


  1. Allot 10-30 minutes time for a “me time.” You may do whatever it is that you find relaxing such as, reading a book, taking a leisurely walk, playing video games, watching an erotic film, piling up dices, etc.
  2. You may compare your life with others whose quality of life is better than yours if, and only if, you would use it as a motivation to make yours better.
  3. Set limits for everything you do. You’re a human, not an indestructible slave whose only purpose is to serve without rest.
  4. Try to be optimistic. A pessimistic mindset leads you nowhere and may even branch off to a plethora of other emotional issues.
  5. Don’t bother yourself with matters that you shouldn’t be bothering yourself with.
  6. 6. Stop thinking about your mistakes. Stop worrying; people don’t spend their entire day thinking about your mistakes and laughing at it as if to mock.
  7. Make it a point to always have an inspiration. It could be a powerful quote you read on a book or that attractive lady sitting next to you.
  8. Forget the past. You cannot finish a book if you keep reading the previous chapters.
  9. Be greedy. There is nothing wrong with being greedy, as it only means that you want more than you already have.
  10. Be envious. Envy means to look with favor upon the possessions of others, and to be desirous of obtaining similar things for oneself.
  11. Envy and greed are the motivating forces of ambition – and without ambition, very little of any importance would be accomplished.
  12. Gluttony is simply eating more than you need to keep yourself alive. Basically, you’re enjoying one of life’s greatest little satisfactions: the taste of food.
  13. This brings us another way of living a happy life: Enjoy the little things.
  14. Have pride! Pride will motivate you to regain an appearance that will renew your self-respect. But, make sure your pride is well used. Being too prideful can make you a jerk.
  15. The strongest instinct in every living thing is self-preservation.
  16. If a man smites you on one cheek, smash him on the other!
  17. Let no wrong go unpunished. Be as a lion in the path – be dangerous even in defeat!
  18. Show kindness to those who deserve it, instead of love wasted on ingrates!
  19. Do unto others as they do unto you”; because if you “Do unto others as you would have them do unto you,” and they, in turn, treat you badly, it goes against human nature to continue to treat them with consideration.
  20. You should do unto others as you would have them do unto you, but if your courtesy is not returned, they should be treated with the wrath they deserve.
  21. Represent indulgence, instead of abstinence.
  22. Responsibility to the responsible. When you do an action, there are consequences and you must face it—good or bad.
  23. Try to talk to the elderly more often. They have much wisdom than you. They are life’s veterans and you may learn a thing or two from them.
  24. Drink loads of water. Learn more about water therapy.
  25. Eat more natural foods. Processed foods have a lot of health hazards. But, that’s another story.
  26. Have a heavy meal for breakfast, a normal dish for lunch and little for dinner.
  27. Be strong, for the weak inherits the yoke.
  28. Be powerful, for among men shall you be reverenced.
  29. Get adequate sleep. Sleep deprivation would diminish your health and mental capacity.
  30. Be bold, for you must master your own world.
  31. Aim for victory for it is the basis of right.
  32. Believe in what you think is best for you and don’t let your mind be terrorized.
  33. Don’t be weak, lest your insecurity make you vile.
  34. Do not be stupid. Do not thrive on it.
  35. In a different sense: be who you are. Meaning to say, don’t be someone you’re not. Don’t talk with a big mouth if you’re just a chump.
  36. Try to use natural remedies for your illnesses.
  37. Stock up on common medicines.
  38. No self-deceit.
  39. Share your philosophies and mindset with other people no matter how strange you think they are. You may just be the next philosopher.
  40. If you’re weird, don’t worry. It sucks to be normal anyway.

سردیوں کی سوغات کہلانے والے5رسیلے پھل

ہم میں سے زیادتر لوگوں کے لیے سردیوں کا مطلب ہے کافی کا گرم کپ، موٹے کمبل اور گرم گرم مونگ پھلیوں کا پیکٹ۔ البتہ سردیاں صرف تفریح کا سامان ہی نہیں ہوتیں بلکہ اپنے ساتھ سردی،زکام اور دیگر بیماریاں بھی لے کر آتی ہیں۔ جس کے بعد اینٹی باؤٹیکس اور اینٹی الرجی کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ۔ موسم سرما میں آنے والے پھل وٹامن اور معدنیات سے بھرپورہوتے ہیں۔ جس سے آپ کی قوت مدافعت مظبوط رہتی ہے۔ یہ چند انتہائی مفید اور صحت بخش پھلوں کی فہرست ہے جوکہ کسی بھی پھلوں کی مارکیٹ میں باآسانی دستیاب ہوتے ہیں: انار انار کے سرخ دانے نہ صرف دکھنے میں خوبصورت لگتے ہیں بلکہ یہ صحت کے لیے بھی انتہائی مفید ہیں۔ شاید اسی لیے انارکو جنت کا پھل کہتے ہیں۔ انار سبز چائے سے تین گنا بہتر اینٹی آکسیڈینٹ ہے۔ اس کی کرشماتی غذائیت بریسٹ کینسر، گٹھیا اور امراض قلب جیسے مسائل سے بچاؤ میں بھی مفید ہے۔ انار میں وٹامن سی، کے، پوٹیشیم اور فولیٹ وآفر مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ انار کا انتخاب کرتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ انار گداز اور گول ہونے چاہیے۔ انار کا وزن زیادہ ہونا چاہیے۔ انہیں فرج میں دو ماہ تک اسٹور کیا جا سکتا ہے۔ نارنجی یہ رسیلا پھل سوزش کے لیے مفید ہے۔ یہ ایک بہترین اینٹی آکسیڈینٹ بھی ہے۔ اس میں وٹامن سی کے ساتھ ساتھ 170 فائیٹو کیمیکلزphytochemicals اور 60فلیوانائیڈflavanoids بھی موجود ہوتے ہیں جس کے باعث اسے سیب کی ہی طرح روزآنہ ایک بار ضرور کھانے کی تجویز دی جاتی ہے۔ نارنجی ہر قسم کے کیمنسر سے بچاتی ہے۔ اس میں موجود کولین choline، اچھی نیند، ذہنی قوت بڑھانے اور جسم کو مظبوط و توانا رکھنے کے لیے مفید ہے۔ نارنجی کی جلد کو ہلکا موٹامگر نرم ہونا چاہیے۔ نارنجیوں کو دو ہفتے تک ہی اسٹور کیا جا سکتا ہے۔ کھجور مسلم ممالک میں کھجوروں کو بے حد اہمیت دی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہی ہے کہ یہ غذائیت کے اعتبار سے ایک بھر پور اور فائدہ مند پھل ہے۔ غذائیت کیلحاظسے ایک بیلنس پلیٹ میں جتنی طاقت ہوتی ہے ایک کھجور بھی جسم کو وہ ہی افادیت پہنچاتی ہے۔ اس میں کاربوہائیڈریٹ (فائبر)، پروٹین، وٹامنز غرض تمام تر غذائیت موجود ہوتی ہے۔ کھجور قبض، ڈائریا اور معدے کی دیگر بیماریوں یہاں تک کہ کینسر سے بچاؤ کے لیے بھی انتہائی مفید ہے۔ یہ آپ کے دل، دماغ اور تولیدی نظام کے لیے فائدہ مند ہے۔ کھجور خریدتے وقت یہ خیال رکھیں کہ کھجور چمکدار اور ایک رنگ کی ہوں اورٹوٹی ہوئی نہ ہوں۔ کھجوریں اتنی آسانی سے خراب نہیں ہوتیں اور انہیں فرج کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ ناشپاتی یہ ہلکا میٹھا اور رسیلا سبز اور زرد پھل فائبر اور وٹامن سی سے بھر پور ہوتا ہے۔ اس میں کاربوہائیڈریٹ کی وافر مقدار تیزی سے جسم کو انرجی پہنچاتی ہے۔ یہ موٹاپے، ذیابیطس اور ہائپر ٹینشن جیسے مسائل دور کرنے میں معاون ہوتا ہے۔ اگر آپ کچی ناشپاتیاں لیتے ہیں تو انہیں ایک کاغذ کی تھیلی میں کسی ٹھنڈی صاف جگہ پر رکھیں۔ اگر پکا ہوا پھل خریدیں تو اسے فرج میں رکھنا ضروری ہے۔ کیوی کیوی کی جلد بھورے رنگ کی ہوتی ہے۔ اس کی طبی و شفاء بخش خوبیوں کے باعث ماہرین اسے خاص اہمیت دیتے ہیں۔ اس میں غذائی ریشے یعنی فائبر کی اتنی مقدار پائی جاتی ہے جتنی کیلے، اناج کے دلیے یا پپیتے میں ہوتی ہے۔ اس میں خوردنی شکر کے ساتھ ساتھ، کیلشیم، فاسفورس اور پوٹاشیم بھی وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ کچے کیوی کو آپ چھ ہفتوں تک اسٹور کرسکتے ہیں۔ لہذا ان سردیوں اپنی صحت کا خیال رکھیں۔ ان پھلوں کو فروٹ چاٹ، کاک ٹیل اور کھانے میں استعمال کیجیے اور سردیوں میں ہونے والی تمام تر بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔

ہاتھوں سے ظاہر ہونے والی پانچ خطرناک بیماریاں

آنکھوں ، بالوں اور دیگر اعضا کی طرح ہاتھوں کی مختلف کیفیات سے بہت سے امراض کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ آپ ہاتھوں کی یہ علامات کسی بیماری کی وجہ ہوتاہم انہیں دیکھ کر احتیاط ضرور کیا جائے اور ان کی شدت سے ڈاکٹروں سے رابطہ کرنا بہتر ہوگا۔
لمبی انگلیاں اور گٹھیا کا خطرہ
اگرچہ مردوں میں انگوٹھی کی انگلی برابر والی انگلی سے لمبی ہوسکتی ہے لیکن اگر یہ علامت خاتون میں ہو تو ان میں گٹھیا ( آرتھرائٹس) کا خطرہ ذیادہ ہوسکتا ہے۔ اس کی وجوہ میں ایسٹروجن ہارمون کی کمی کا دخل بھی ہوسکتا ہے۔ اگر مردوں میں انگوٹھے کی انگلی سب سے لمبی ہو تو یہ کثرتِ اولاد اور اپنی بیوی سے بہتر تعلقات کی علامت ہوسکتے ہیں لیکن پروسٹیٹ کینسر کو بھی ظاہرکرتے ہیں۔
کپکاتے ہوئے ہاتھ اور پارکنسن کا مرض
اگر ہاتھ کپکپاتے ہوں تو یہ کیفین کی زیادتی، دمے کے مرض اور ڈپریشن دور کرنے والی دواؤں کا ردِ عمل بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن اس کی زیادتی پر اپنے ڈاکٹروں سے رجوع کیجئے۔ تمام ماہرین کا اتفاق ہے کہ یہ پارکنسن کے مرض کی علامت بھی ہوسکتی ہے یا کسی رسولی کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے جو دماغ میں سرطانی یا غیرسرطانی بھی ہوسکتی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ اس کا علاج موجود ہے۔
ناخنوں کا رنگ، امراضِ گردہ
ایک بھارتی ڈاکٹر نے گردے کے شدید بیماری میں مبتلا 100 مریضوں کا بغور جائزہ لیا جس سے معلوم ہوا کہ ان میں سے 36 فیصد مریضوں کی انگلیوں کے ناخنوں کا رنگ نیچے سے سفید اور باقی آدھے حصے پر براؤن تھا۔ اس کی وجہ خون کی کمی اور گردے کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد ہارمون کی کمی بیشی سے ہوسکتا ہے۔ اگر آپ نے ناخن کا نصف حصہ گہری رنگت کا ہو اور گردوں کی کوئی تکلیف پیدا ہورہی ہو تو ضرور ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔ اگر ناخن پر سیدھی گہری لکیریں یا ابھار ہوں تو وہ جلد کے کینسر کی وجہ بھی ہوسکتے ہیں۔
کمزور گرفت، امراضِ قلب اور فالج
کمزور گرفت اعصاب کی کمزوری ، فالج کے خطرے اور کم زندگی کو ظاہر کرتی ہے۔ حال ہی میں ایک بین الاقوامی طبی تحقیقی جریدے لینسٹ نے 17 ممالک میں ایک لاکھ 40 ہزارافراد کا مطالعہ شائع کیا ہے جس سے یہی نتیجہ اخذ کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گرفت کی کمزوری دل سمیت تمام پٹھوں کی قوت کو ظاہر کرتی ہے اورخاص طور پر بہتر بلڈ پریشر کو ظاہر کرتی ہے۔ ضروری ہے کہ دل کو بہتر بنانے کے لیے ورزش کی جائے اور روزانہ کم از کم 30 منٹ تک تیز قدموں سے چلا جائے۔
انگلیوں کے نشانات اور ہائی بلڈ پریشر
برطانوی ماہرین نے 139 افراد کے فنگرپرنٹس لیے ہیں ۔ جن افراد کے نشاناتِ انگشت ( فنگرپرنٹس) مرغولے دار ( ورل) ہوتے ہیں ان میں بلند بلڈ پریشر کا خطرہ زیادہ ہوسکتا ہے۔ جتنی انگلیوں پر یہ نشانات ہوں گے بلڈ پریشر زیادہ ہونے کا خطرہ بھی اتنا ہی ہوگا۔ ماہرین کے مطابق ماں کے پیٹ میں ہی انگلیوں کے نشانات بن جاتے ہیں اور مختلف امراض کی وجہ بھی بن سکتے ہیں۔

خون کی کمی کی وجوہات

خون کی کمی (Anemia) ایک ایسے کیفیت ہے جس میں خون میں سرخ خلیے بننا کم ہوجاتے ہیں۔سرخ خلیوں کا سب سے اہم حصہ ہیموگلوبن ہوتا ہے اور یہ پھیپڑوں سے آکسیجن لے کر جسم کے باقی حصوں تک پہنچاتا ہے۔ اگر جسم میں سرخ خلیوں یا ہیموگلہبین کی کمی واقع ہوجائے تو جسم کے دیگر حصوں کو آکسیجن نہیں پہنچ پاتی جس کے باعث جسم کے دیگر حصوں کو کام کرنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ وجوہات خون کی کمی یا اینمیا 400 اقسام کی ہوتی ہے جنھیں تین گروپوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: ٭خون ضائع ہوجانے کے باعث ہونے والی خون کی کمی: کسی چوٹ کے لگنے، زچگی یا کینسر جیسی بیماریوں میں بعض اوقات زیادہ خون ذائع ہوجاتا ہے جس سے جسم میں خون کی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ ٭سرخ خلیوں کے بننے میں کمی یا خرابی کے باعث ہونے والی خون کی کمی: جسم میں سرخ خلیوں کی کمی کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ جیسے کہ جسم کو ضرورت کے مطابق وٹامنز نہ ملنا، آئرن کی کمی، ہڈیوں کا گودا کم ہوجانا یا دیگر امراض۔اس کے علاوہ سگریٹ نوشی، وزن زیادہ ہونے یا بڑھتی عمر کی وجہ سے بھی یہ مرض لاحق ہوسکتا ہے۔ ٭سرخ خلیوں کے تباہ ہوجانے سے ہونے والی خون کی کمی: جن کے سرخ خلیات کمزور ہوتے ہیں وہ ذرا سے دباو ¿ سے ہی پھٹ جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مریض کہ وا لدین میں سے کسی کو خون کی کمی رہی ہویا کسی انفیکشن کے باعث جسم میں جراثیم داخل ہو گئے ہوں۔ اس کے علاوہ جگر یا گردے کی بیماری میں جسم سے خارج ہونے والے زہریلے مواد سے بھی جسم میں خون کی کمی ہوجاتی ہے۔ علامات alamaat خون کی کمی کی علامات خون کی کمی ہونے کی وجوہات پر منحصر ہیں۔ عام طور پر اینمیا کی مندرجہ ذیل علامات ظاہر ہوتی ہیں: ٭تھکاوٹ ہونا ٭کمزوری ہونا ٭جلد کا پیلا پڑ جانا ٭سانس لینے میں تکلیف ٭سینے میں درد ٭چکر آنا ٭ہاتھ اور پاو ¿ں ٹھنڈے پڑنا شروع شروع میں اینمیا کی علامات اتنی ہلکی نوعیت کی ہوتی ہیں کہ انہیں پہچان پانا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان علامات میں شدت آنے لگتی ہے۔ اگر ایک عرصے تک بنا کسی جسمانی مشقت کے تھکاوٹ محسوس ہو تو کسی معالج سے ضرور مشورہ کرلیں۔ ٭اینمیاکا علاج اس کی نوعیت پر منحصر ہے۔ اگر مرض کی شدت زیادہ نہ ہو اور وہ جسم میں آئرن کی کمی کی وجہ سے ہوا ہو تو عام طور پر ڈاکٹرز آئرن سپلیمنٹس کا استعمال کرنے کو کہتے ہیں۔ ٭اگر خون کی کمی کسی انجری یا بیماری میں جسم سے وافر مقدار میں خون ذائع ہوجانے کی وجہ سے ہوئی ہوتو ذائع ہونے والے خون کی کمی پورا کرنے کے لیے خون کی بوتلیں چڑھائی جاتی ہیں۔ ساتھ ہی جسم سے خون ذائع ہونے کی وجہ کو بھی دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ٭اگر کیمو تھیرپی یا ایسے کسی اور علاج میں خون کی کمی واقع ہوجائے تو اپیوٹن ایلفا Epoetin Alfaیا ایپوجنEpogenکا استعمال کیا جاتا ہے۔ ٭بعض اوقات کسی خاص دوا سے بھی جسم میں خون کی کمی ہونے لگتی ہے۔ اگر ایسی علامات ظاہر ہونے لگیں تو ڈاکٹر اکثر نسخہ تبدیل کر دیتے ہیں یا خون کی کمی کو پورا کرنے کے لیے آئرن سپلیمنٹس لینے کا مشورہ دیتے ہیں۔ غذا سے علاج اس کے علاوہ غذاکے ذریعے بھی خون کی کمی کو دور کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ خون کی کمی کرنے والی چند غذائیں مندرجہ ذیل ہیں: ٭پالک: پالک جسم میں فوری خون بناتا ہے۔ آپ اسے سالاد میں استعمال کر سکتے ہیں۔ روزانہ ایک پلیٹ ہری سبزیوں کا سلاد کھانے سے خون کی کمی کو دور کیا جاسکتا ہے۔اس کے علاوہ پالک کا جوس بھی صحت کے لیے مفید ہے۔ ٭چقندر: یہ سبزی جسم میں آئرن کی کمی کو دور کرتی ہے۔ جس سے جسم کے سرخ خلیوں کی مرمت ہوتی ہے۔ اسے کسی بھی شکل میں اپنی روز مرہ کی غذا کا حصہ بنائیں۔ ٭سرخ گوشت: خون کی کمی کا شکار افراد ہفتے میں دو سے تین بار گوشت ضرور کھائیں۔ تین اونز مرغی یا گائے کے گوشت سے جسم کو 2.2ملی گرام آئرن ملتا ہے۔ ٭ٹماٹر: وٹامن سی حاصل کرنے کے لیے ٹماٹر بے حد مفید ہے۔ جسم میں موجود وٹامن سی زیادہ سے زیادہ آئرن جذب کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ ٭انڈے: یہ بھی آئرن کے حصول کا ایک بہترین ذریعہ ہیں۔ ایک بڑے انڈے میں تقریباًایک ملی گرام آئرن ہوتا ہے۔ ایک انڈا روزانہ کھانے سے خون کی کمی دور ہوسکتی ہے۔ خون کی کمی ایک قابل علاج بیماری ہے جسے اپنی طرز زندگی اور خوراک میں تبدیلی لا کر بڑی آسانی سے دور کیا جا سکتا ہے۔ انیمیا کی علامات محسوس ہونے پر اپنے معالج سے رابطہ کریں اور بتائی گئی احتیاط اور علاج کے طریقوں پر عمل کریں۔

Saturday, August 15, 2015

چند ایسی عادات جو آپ کے لئے تکلیف کا باعث بن سکتی ہیں

انسان کچھ ایسی عادات کا شکار ہوجاتا ہے جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں اور غیر محسوس طریقے سےتو وہ زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں جب کہ ماہرین طب کا کہنا ہے کہ اگران عادات کا چھوڑا جائے تو یہ انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھنا: ایک تحقیق کے مطابق ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھنے سے بلڈ پریشربڑھ جاتا ہے جب کہ ماہرین طب کا کہنا ہے کہ اس طرح مسلسل بیٹھنے سے کم از کم بلڈ پریشر میں 7 فیصد اورزیادہ سے زیادہ بلڈ پریشر میں 2 فیصد تک اضافہ ہوجاتا ہے اس لیے ضروری ہے ٹانگ پر ٹانگ (کراس لیگ) رکھ کر 15 منٹ سے زیادہ نہ بیٹھیں۔ آرتھوپیڈک ڈاکٹرفیڈ  کا کہنا ہے کہ ایک ہی جگہ مسلسل نہ بیٹھیں اور ہر 45 منٹ تھوڑی دیر کے لیے چہل قدمی کریں۔
جب بھی کھڑے ہوں گھٹنوں کو کچھ خم دیں: گھٹنوں کو بند کرکے کھڑے نہ ہوں اس سے جوڑوں پر وزن اور دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جب بھی کھڑے ہوں گھٹنوں کو ذرا سا خم دیں لیں اس سے آپ کے جوڑوں کے گرد موجود پٹھے کام کرتے ہیں لیکن بند گھٹنوں سے کھڑے ہونے سے پٹھوں کو کام کرنے کا موقع نہیں ملتا۔
پیٹ کے بل نہ سوئیں: بہت سے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ پیٹ کے بل سوتے ہیں جو مناسب نہیں اس سے پیٹ بڑھ جاتا ہے۔ جو لوگ کمرکے بل نہیں سوتے ان کی گردن غیر فطری اندازمیں رہتی ہے اورخون کی گردش کو متاثر کرسکتی ہے۔
بہت ٹائٹ بیلٹ نہ پہنیں: اکثر لوگ اسمارٹ اور سلم نظرآنے کے لیے کمر کو گرد انتہائی ٹائٹ بیلٹ باندھتے ہیں لیکن یہ نظام ہاضمہ کو متاثر کرتی ہے۔ ڈاکٹر نوپرکرشنا کا کہنا ہے کہ دیر تک ٹائٹ بیلٹ پہننے سے پیٹ بھی کس جاتا ہے جو پیٹ کے اندر بھی سختی پیدا کرتا ہے جس سے ہاضمے کا عمل معمول کے مطابق نہیـں ہوتا جس سے تیزابیت پیدا ہوسکتی ہے۔ بیلٹ کو اتنی ٹائٹ کریں کہ آپ آرام دہ طریقے سے بیٹھ سکیں اور بآسانی سانس لے سکیں۔
جاگتے ہی کھچاؤ والی ورزش نہ کریں: انسان جب سو کر اٹھتے ہی کھچاؤ والی ورزش شروع کردے تو کمر کی ڈسکس متاثر ہوتی ہیں اس لیے ضروری ہے کہ سو کر اٹھتے کچھ دیگر سرگرمیاں جیسے برش کرنا اور چہل قدمی کریں اور اس کے بعد ورزش کریں۔ ماہرین طب کا کہنا ہے کہ سوکر اٹھتے ہی ورزش کرنے سے شدید قسم کا کمر اور گردن کا درد ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔
مسلسل ببل گم نہ چبائیں: ڈٓاکٹرز کا کہنا ہے کہ ببل گم کو مسلسل چبانے کی عادت کو ختم کریں کیوں کہ اس عادت کی وجہ سے آپ کے دانت اور جبڑوں کے پٹھوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
مختلف طریقوں سے بیگ اٹھائیں: آرتھوپیڈک سرجن  ٹیجاس اوپاسنی کا کہنا ہے کہ کندھوں پر بیگ اٹھا کر مسلسل چلنے سے پٹھوں میں عدم توازن پیدا ہوجاتا ہے جس سے کمراوربازوں میں درد رہنے لگتا ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ اگر آپ اپنا بیگ ہمیشہ دائیں کندھے پر ہی اٹھائیں گے تو اس سے کندھے کے پٹھوں میں کھچاؤ پیدا ہوگا اس لیے پہلی کوشش تو یہ کریں کہ کم وزن اٹھائیں اور دوسرا بائیں کندھے کا بھی استعمال کریں۔
سپر ٹائٹ جینز پہننے سے گریز کریں: انتہائی ٹائٹ جینز اور پینٹس پہننے سے صحت کے کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ٹائٹ جینز پہننے سے جسم کی حرکت محدود ہوجاتی ہے جو دوران خون کو روک دیتی ہے۔
اپنے طرززندگی پر نظر رکھیں: ماہرین کا کہنا ہے کہ جو لوگ اپنے طرززندگی پرنظررکھ کراسے بہتر کرتے ہیں وہ نہ صرف اسمارٹ بلکہ جوان نظر آتے ہیں اور کئی جسمانی بیماریوں اور تکالیف سے دور رہتے ہیں۔ ہے ہنگم طریقے سے جھکنے سے کمر اور بازمتاثر ہوتے ہیں۔ کسی دیوارکے ساتھ اس طرح کھڑے ہوں کہ بازو مربع کی شکل میں رہیں جبکہ سر کا پچھلا حصہ دیوار کے ساتھ لگا ہو او آپ اوردیوار کے درمیان فاصلہ رہے اس طرح کہ آپ کی کمرکا کچھ حصہ، کولہے اور ایڑیاں دیوار کو ٹچ کریں۔
مذکورہ طریقے اپنانے سے جہاں آپ خود کو صحت و تندرست رکھ سکتے ہیں بلکہ آپ روزہ مرہ کی معمولی تکالیف سے بھی دور رہ سکتے ہیں۔

Thursday, May 14, 2015

Wednesday, September 12, 2012

What is a brain stroke?

The brain

The brain is the most complex organ in the body. It's divided into two sides, or hemispheres, each controlling the opposite side of the body and different areas of activity.

The left hemisphere controls cognition (thinking) and language, plus movement and sensation on the right side of the body. The right hemisphere controls functions involved in more visual-spatial skills, such as the ability to judge distances, size, form and where things are in space (which may affect skills such as map reading, for example), as well as movement and sensation on the left side of the body.

The brain regulates absolutely everything your body does – breathing, moving, sweating, sleeping, waking, feeling, your moods, thoughts and speech. To perform all these functions, it must have a constant supply of blood to deliver oxygen and nutrients to the brain cells.

Ischaemic stroke

There are two types of stroke. Ischaemic strokes are the most common, accounting for 80 per cent of cases. The artery is blocked by a blood clot, which interrupts the brain's blood supply.

This may be due to a cerebral thrombosis (sometimes called a thrombotic stroke), where a blood clot forms in one of the main arteries leading to the brain, or to a cerebral embolism (sometimes called an embolic stroke). Cerebral embolisms happen when a blood clot forms elsewhere in the body and is swept into the arteries serving the brain, travelling to a blood vessel small enough to block its passage. The clot lodges there, blocking the blood vessel and causing a stroke.

In atrial fibrillation, where the two upper chambers of the heart – the atria – beat irregularly instead of beating in a normal rhythmn, blood is not properly pumped out of the heart. As a result, a clot may form – if this lodges in an artery in the brain, a stroke may result. The American Heart Association says around 15 per cent of strokes are caused in this way, a cardioembolic stroke.

Blood clot strokes can be the result of unhealthy blood vessels clogging with a build-up of fatty deposits and cholesterol. Such material is called atheroma. (The body regards these build-ups as multiple, tiny and repeated injuries to the blood vessel wall and reacts as it would to bleeding from a wound, by forming clots.) Such narrowings are made worse by atherosclerosis - hardening of the arteries. Fatty tissue or air bubbles may also form emboli, which cause stroke, especially after major trauma.

Transient ischaemic attack (TIA)

A transient ischaemic attack, often known as a mini-stroke, is a brief episode where some brain function is temporarily lost because of a short-lived disruption of the blood supply. Symptoms, such as weakness of a limb, last for just minutes (typically two to 15 minutes) before the blood supply returns and everything returns to normal, because the brain cells haven't suffered permanent damage.

Traditionally it has been said that if symptoms last less than 24 hours it's a TIA, but when symptoms persist for longer then a stroke has occurred. But with more powerful and sophisticated brain-scanning techniques, it has become possible to show that permanent damage (the real hallmark of a stroke) can usually be detected when symptoms last more than an hour or so.

TIAs are an important warning that all is not well with the blood supply to the brain and may be a sign of an imminent full-blown stroke. The risk of suffering a complete stroke within the first month after a TIA may be as high as 20 per cent, with the risk being even greater in the first few days following a TIA.

Haemorrhagic stroke

In the remaining 20 per cent of cases, strokes are caused by blood vessels in or around the brain rupturing and causing bleeding, or a haemorrhage. The build-up of blood presses on the brain, damaging its delicate tissue. Meanwhile, other brain cells in the area are starved of blood and damaged.

There are two types of haemorrhagic stroke: subarachnoid and intracerebral.

In intracerebral haemorrhage, bleeding occurs from vessels within the brain itself. High blood pressure (hypertension) is the primary cause of this type of haemorrhage.

In subarachnoid haemorrhage, an aneurysm bursts in a large artery on or near the delicate membrane (the subarachnoid space) surrounding the brain. Blood spills into the area around the brain, which is filled with a protective fluid, causing the brain to be surrounded by blood-contaminated fluid.

Strokes caused by the breakage or blow-out of a blood vessel in the brain can be the result of number of things:

  • A cerebral aneurysm (ballooning of a weakened blood vessel in the brain), which is left untreated
  • High blood pressure
  • A cluster of abnormally formed blood vessels, where some blood vessels may be dilated or have thinner than normal walls (arteriovenous malformation); this means they are are more liable to burst

Aneurysms develop over a number of years and do not usually cause detectable problems until they break.

Causes of stroke

Each type of stroke has different causes. They include:

  • Diseased arteries – blockage of the arteries is usually the result of athersclerosis, furring and narrowing of the artery walls with a mixture of cholesterol and other debris
  • Aneurysm – a weakened spot on an artery wall causes it to stretch. The vessel wall may become so thin it bursts, causing bleeding into the brain (haemmorhagic stroke)
  • Atrial fibrillation – this kind of irregular heartbeat (arrhythmia) can cause a blood clot to form in the heart, which then travels to the brain

 

Stroke symptoms

Man having physiotherapy

Symptoms generally appear suddenly and without warning, and the signs and symptoms of a stroke and a transient ischaemic attack (TIA) are the same. They include:

  • Sudden weakness, numbness or paralysis often down one side of the body, affecting the face, arm, leg or whole side
  • Sudden trouble seeing in one or both eyes
  • Sudden severe headache with no known cause
  • Sudden confusion, trouble speaking or ability to understand what others are saying, or an alteration in speech, such as slurring words
  • Sudden difficulty with walking, dizziness, loss of balance or co-ordination
  • Swallowing difficulties

Other less obvious symptoms include difficulties in perception or thinking, mood swings and personality change.

If a stroke is suspected, it's vital to get medical help quickly. The sooner treatment is given the less damage there is likely to be to the brain tissue and the better the odds of a good recovery.

Who is at risk of a stroke?

Anyone of any age, including children, can have a stroke. However nine out of 10 of people affected are over 55. Certain risk factors increase the chances of someone having a stroke.

Stroke and lifestyle factors

Some risk factors are within your control. These are lifestyle factors such as:

  • Smoking - smokers are at twice the risk of stroke
  • Inactivity - people who are physically inactive are at twice the risk of stroke as those who are moderately active
  • Alcohol - binge drinking and regular heavy alcohol intake increase the risk of stroke
  • Diet - a diet high in salt and fatty foods is linked to high blood pressure and atherosclerosis, which increase the risk of stroke

Stroke and medical factors

Some illnesses and medical conditions increase the risk of stroke. They include:

  • High blood pressure - persistent, untreated hypertension is the major risk factor for stroke and transient ischaemic attack (TIA)
  • Cardiovascular problems - existing blood vessel disease,angina, heart attack or a previous TIA and atrial fibrillation(a type of irregular heart beat) increase the risk of stroke
  • Diabetes - diabetes doubles the risk of a stroke

Most of these can be treated.

Other stroke risks

Some risk factors are beyond your control and can't be medically treated. They include:

  • Age - stroke is more common in people over the age of 55
  • Gender - in the under-75s, men are more likely than women to have a stroke
  • Ethnic background - south Asians, Africans and African-Caribbeans are at a higher risk of stroke
  • Genetic inheritance - if you have a first-degree relative who had a stroke at an early age (under 50) you're at higher risk